Sunday, 17 August 2014


مصر کے مشہور قاری عبدالباسط رحمہ اللہ کو حسن قرات میں اللہ نے بہت نوازا تھا. انکی کیسٹس اور سی ڈیز آج بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں. ایک دفعہ امریکہ کے دورے کے دوران آپ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ" قاری صاحب! آپ اتنا قرآن پڑھتے ہیں، آپ نے کبھی قرآن کا کوئی معجزہ دیکھا "؟
فرمانے لگے " میں نے کئی معجزے دیکھے۔"
عرض کیا۔" ہمیں بھی سنا دیجیے"۔
قاری صاحب نے بتایا کہ " ایک مرتبہ ہمارے ملک کے صدر کو روس جانا پڑا، وہاں کے حکام نے ان سے میٹنگ کے بعد کہا، کیا مسلمان بنے پھرتے ہو،چھوڑو اس مسلمانی کو،ہماری طرح بن جاؤ، ہم تمہاری مدد کریں گے، تم ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہوجاؤ گے"۔
صدر نے جواب دینے کی کوشش کی لیکن فاعدہ نہ ہوا۔
دو تین سال کے بعد ان کا پھر جانا ہوا، مجھے اطلاع ملی کہ صدر صاحب چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کے ساتھ ماسکو چلو۔ میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ عبدالباسط کی ضرورت پڑے عرب میں، امارات میں، پاکستان، ہندوستان میں یا جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں۔ روس میں کافر دین و مذہب کو مانتے ہی نہیں، وہاں میری کیا ضرورت ؟
خیر میں نے تیاری کی اور چل پڑا، وہاں انکی میٹنگ کے بعد صدر نے میرا تعارف کروایا کہ یہ میرے دوست ہیں آپ کے سامنےکچھ پڑھیں گے۔ وہ نہ سمجھے کہ کیا پڑھیں گے۔.. میں نے سورہ طہ پڑھنا شروع کی، جب میں نے دو رکوع پڑھ کر سر اٹھایا تو دیکھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے دہریوں میں سے چا ر بندے ایسے تھے جو آنسوؤں سے رو رہے تھے ۔ صدر صاحب نے ان سے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہو"؟
کہنے لگے " ہمیں تو پتہ نہیں کہ اس نے کیا پڑھا ہے، لیکن پڑھنے میں اور الفاظ میں ایسی تاثیر تھی کہ دل ہمارے موم ہوگئے اور آنکھوں میں آنسو آگئے"۔
قاری صاحب فرمانے لگے یہ قرآن کا معجزہ تھا کہ جو اسے مانتے ہی نہیں، اس کا نام تک نہیں جانتے، اسکی زبان سے بھی واقف نہیں ، صرف ان کے سامنے پڑھا جائے تو انکے سینوں میں اترتا چلا جاتا ہے اور انکو دلوں کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے۔

Saturday, 16 August 2014

آئین جوان مرداں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
روشنی اور گرمی خدا کے شیروں کی نمایاں صفات ھوتی ہیں وہ دشمن کے سامنے سینہ سپر ھوجاتے ۔ مکار اور بے شرم دنیادار لوگ اور زرپرست ، انسانی ، اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو فراموش کرکے صرف اپنے مفادات حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ وہ انہیں حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے مکرو فریب سے کام لیتے ہیں ، ظاہر میں وہ بڑے نیک پارسا ،دیندار ، انسانون کے ھمدرد ، بے لوث اور دولت سے بے نیاز بننے کی کوشش کرتے ہیں بعض اوقات وہ خدا کے احکام کی من مانی تاویلوں اور بزرگون سے محبت کے پردے میں سادہ لوح لوگوں پر اپنی دینداری اور پارسائی کا اثر ڈالتے ہیں تاکہ لوگ ان کی باتوں اور انکے آقاؤں کی مکارویوں کے چنگل میں پھنس سکیں ۔ مولانا روم نے ایسے نام نہاد دینداروں محب وطنوں اور ھمدردوں سے بچنے کی یوں تلقین کی ہے ۔
اے بسا ابلیس روۓ آدم است
پس بہ ہر دستے نہ باید داد است
(اکثر اوقات ابلیس انسان کی شکل میں ھوتا ہے ۔ اس لیے ہر ایک کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنی چاہیے )
عزائم کو سينوں ميں بيدار کردے
نگاہ مسلماں کو تلوار کردے
Iqbal

Thursday, 14 August 2014

Islamic Republic of Pakistan
Our Quid
14 August 1947-2014


قیام پاکستان کے وقت ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺑﮯﭼﺎﺭﯼ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﮨﺎﻧﭙﺘﯽ ﮐﺎﻧﭙﺘﯽ ﭨﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﮔﭩﮭﺮﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺎﻣﺸﮑﻞ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ ۔ ﯾﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﻓﺮﺳﭧ ﮐﻼﺱ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﯿﺲ ﺁﺩﻣﯽ ﭨﮭﺴﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﻮ ﺟﮕﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﻧﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎﮐﮧ ۔۔۔۔ ﺑﮭﯿﺎ ﺗﻢ ﮐﺲ ﺩﺭﺟﮧ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﻮ؟

ﯾﮧ ﻓﺮﺳﭧ ﮐﻼﺱ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﯾﺰﺭﻭ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻣﻠﮏ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻭﻃﻦ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﭼﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﯾﮧ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﯼ ﺑُﮍﮬﯿﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻟﭩﺎ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺑﭽﺘﯽ ﺑﭽﺎﺗﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﻮﺵ ﮨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻤﯿﺰ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺲ ﺩﺭﺟﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ ﺍُﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ۔ ۔۔ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮔﺎﮌﯼ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻏﻢ ﻭ ﺍﻟﻢ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﭘﺎ ﻟﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﺘﺎ ؟ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺘﺎ ؟ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ؟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺻﺪﻣﺎﺕ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺳﻮﺭ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﮔﻨﮓ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔

ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﺮﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﭨﮑﭧ ﭼﯿﮑﺮ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﭘﯽ ﭨﮑﭧ ﭼﯿﮑﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﻣﺴﺎ ﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ! ﯾﮧ ﭨﮑﭧ ﭼﯿﮑﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﯿﮑﺮ ﻧﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭨﮑﭧ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﻭ ﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﺴﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺘﯽ۔ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﮮ ۔

ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭨﮑﭧ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺟﮧ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﭨﮑﭧ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ، ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ، ﻏﻢ ﻭﺍﻧﺪﻭﮦ ﮐﯽ ﻓﻀﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻋﺎﻡ ﻣﻌﻤﻮﻻﺕ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﮍٰﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﭼﯿﮑﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﭦ ﺑﮏ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻼ ﭨﮑﭧ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺑُﮍﮬﯿﺎ ﮐﺎ ﭼﺎﻻﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﺳﯿﺪ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺑُﮍﮬﯿﺎ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﻮﻟﯽ ۔۔۔ ۔ ﺑﯿﭩﺎ! ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﺳﯿﺪ ﻧﮧ ﮐﺎﭦ ۔

ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ ۔۔۔ ﺍﻣّﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺑﻼ ﭨﮑﭧ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ؟ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﭼﺎﻻﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﺗﻢ ﺑﮩﺖ ﺩﮐﮭﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮ ۔ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔

ﺍﺣﺴﺎﺱِ ﻓﺮﺽ، ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺳﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﻧﻤﻮﻝ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﻘﺶ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻓﺮﺽ ﺷﻨﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﭨﮑﭧ ﭼﯿﮑﺮ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ؟ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻝ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ۔